چالاک گیدڑ اور بھولا بھالا اونٹ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں ندی کنارے ایک اونٹ اور گیدڑ رہا کرتے تھے۔ دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ جو کام کرتے مل جل کر کرتے۔
اونٹ جتنا بھولا بھالا تھا گیدڑ اتنا ہی چالاک اور مکار تھا۔ وہ اکثر سوچتا کہ اونٹ کسی طرح ختم ہو جائے تو اس کا لذیذ گوشت کھانے کے علاوہ اس جگہ اس کی حکمرانی بھی ہو جائے ۔ ایک دن گیدڑ نے کسی سے سنا کہ ندی کے پار گنوں کے کھیت ہیں۔ یہ بات گیدڑ نے سنی تو اس کے منہ میں پانی اگیا۔ وہ فوراً اونٹ کے پاس آیا اور بولا " بھائی اونٹ آؤ ندی پار چلیں تم گنوں کے کھیت سے گنوں کے پتے کھا لینا اور میں تھوڑے سے گنے چوس لوں گا" ۔
اونٹ نے گیدڑ کے اس مشورے کو پسند کیا اور دونوں ندی کی طرف چلنے لگے۔
ندی بہت ذیادہ گہری تھی۔اسے پار کرنا آسان نہیں تھا۔ گیدڑ نے اونٹ سے کہا " بھائی میں یہ ندی پار نہیں کر سکوں گا کیا میں تمہاری پیٹھ پر سوار ہو جاؤں "؟ گیدڑ کی یہ بات سن کر اونٹ نے گیدڑ کو اپنی پیٹھ پر سوار کرالیا۔ اس طرح دونوں کنارے پر پہنچ گئے ۔ گیدڑ نے ہرے بھرے کھیت دیکھ کر تو دوڑ لگا دی۔ اونٹ بھی گنے کے ننھے ننھے پتے کھانے میں مصروف ہوگیا۔ اب گیدڑ کو شرارت سوجھی اس نے جلدی جلدی گنوں کے رس سے اپنا پیٹ بھر لیا۔ اور ذور زور سے چلانے لگا۔ اونٹ نے جب یہ دیکھا تو وہ گھبرا گیا اور گیدڑ کی منت سماجت کرنے لگا اے دوست یہ کیسی شرارت ہے ابھی تو میرا پیٹ بھی نہیں بھرا اگر ابھی تمہاری آواز سن کر اس کھیت کا مالک آگیا تو وہ تو مار ہی ڈالے گا۔ گیدڑ اونٹ کی بات سن کر کہنے لگا۔ " اگر میں کھانا کھا کر چیخیں نہ ماروں تو میرا کھانا ہضم نہیں ہوتا". اونٹ یہ جواب سن کر حیرت سے گیدڑ کو دیکھنے لگا لیکن گیدڑ نے اونٹ کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ وہ پہلے سے بھی ذیادہ زور سے چیخنے لگا۔ یہ چیخیں کھیت کے مالک تک پہنچ گئیں اس نے سوچا ضرور کوئی جانور کھیت میں گھس کر کھیتوں کو نقصان پہنچا رہا ہے اس نے ایک موٹا سا ڈنڈا ہاتھ میں لیا اور کھیت کی طرف دوڑا۔
کسان نے اونٹ کو دیکھتے ہی پکڑ لیا اور اونٹ کی مرمت شروع کردی اتنا مارا کہ اونٹ بیچارہ بیہوش ہوگیا۔ گیدڑ پہلے ہی مالک کو دیکھ کر چھپ گیا تھا۔
جب کھیت کا مالک چلا گیا تو گیدڑ جھاڑیوں کے پیچھے سے نکلا اور اونٹ کو ہوش میں لانے لگا۔ اونٹ کو ہوش آیا تو گیدڑ کو دل ہی دل میں کوسنے لگا۔ مگر منھ سے کچھ نہ بولا۔
چنانچہ اونٹ کے درد میں کچھ کمی ہوئی تو چلنے کے لیے اٹھا۔ گیدڑ پہلے سے ہی تیار بیٹھا تھا۔ ندی کے کنارے پہنچتے ہی گیدڑ اونٹ کی پیٹھ پر سوار ہوگیا۔
حب ندی کے بیچ میں پہنچا تو اونٹ ڈبکیاں لگانے لگا۔ یہ دیکھ کر گیدڑ کے حواس گم ہوئے اور منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں، چناں چہ گیدڑ نے کہا بھائی اونٹ یہ کیا کر رہے ہو۔ اس پر اونٹ نے بے پروائی سے جواب دیا کہ میں پودے کھا کر تھوڑی دیر ڈبکیاں ضرور لگاتا ہوں۔ اگر نہ لگاؤں تو مجھے کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ اس پر گیدڑ نے کہا کہ پیارے دوست اس طرح تو میں ڈوب جاؤں گا۔ گیدڑ نے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر اونٹ نے ایک نہ سنی ۔ گیدڑ کبھی اس کی گردن پکڑتا کبھی کوہان سے لپٹ جاتا لیکن اس کی ایک نہ چلی اسی طرح ڈبکیاں کھاتے کھاتے ندی میں ڈوب گیا۔
اس طرح شریر گیدڑ نے اپنے کیے کی خوب سزا پائی ۔