بادشاہ سلامت اور ذہین ماہی گیر
بادشاہ سلامت اور ان کی ملکہ دربار لگا کے بیٹھے تھے۔ ان میں وزیر بھی موجود تھا۔ اسی درمیان میں ایک ماہی گیر ( مچھیرا ) محل کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اس نے بادشاہ سلامت کے لیے ایک بہت بڑی اور موٹی مچھلی پکڑ رکھی تھی۔ صیاد نے اجازت پاکر بادشاہ سلامت کی خدمت میں پیش کر دی۔ بادشاہ اس وقت بہت خوش تھا۔ مچھلی پسند آئ تو حکم دے بیٹھا کہ ماہی گیر کو پانچ ہزار درہم انعام دیا جائے ۔ ملکہ عالیہ کی طبیعت اس وقت کچھ اور انداز کی تھی۔ ملکہ عالیہ نے بادشاہ سلامت کے اس فیصلے پر اعتراض کیا اور کہا " اتنی بڑی رقم ایک ماہی گیر کے لیے بہت ذیادہ ہے "۔
ملکہ عالیہ نے بات صحیح کی تھی اس لیے بادشاہ سلامت کو اتفاق کرنا پڑا۔
بادشاہ نے ملکہ عالیہ سے کہا " میں اب کیا کروں میں تو انعام کا حکم دے چکا ہوں " ۔
ملکہ عالیہ نے کہا " یہ کوئی ایسی پریشانی کی بات نہیں۔ ماہی گیر سے پوچھیں کہ یہ مچھلی نر ہے یا مادہ؟ اگر وہ کہے نر ہے تو آپ کہیں ہمیں پسند نہیں اور اگر وہ کہے مادہ ہے تو بھی آپ یہی کہیں ہمیں پسند نہیں ۔ مجبور ہو کر وہ مچھلی واپس لے جاے گا اور انعام کی رقم بچ جائے گی"۔
وہاں کھڑا وزیر یہ سب باتیں سن رہا تھا۔ اس نے بادشاہ سلامت سے عرض کی۔ "جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں"۔ بادشاہ سلامت نے کہا" اجازت ہے" ۔
وزیر بولا "بادشاہ سلامت عورت کے بہکاوے میں نہ آئیں"۔
مگر بادشاہ سلامت نے مشورہ قبول نہیں کیا اور ماہی گیر سے سوال کر ہی لیا۔ " بتاؤ اے ماہی گیر یہ مچھلی نر ہے یا مادہ؟" ماہی گیر نے بڑے ادب سے کہا " بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو یہ مچھلی نہ نر ہے نہ مادہ ہے یہ مچھلی خنثیٰ ہے"۔
بادشاہ سلامت اس جواب سے بہت خوش ہوئے اور حکم دیا کہ ماہی گیر کو پانچ ہزار درہم اور دیے جائیں " ۔
حکم کی تعمیل ہوئی اور ماہی گیر اس رقم کو خوش خوش چادر میں باندھنے لگا اتنے میں ایک درہم زمین پر گر گیا۔ ماہی گیر نے جھک کر اسے اٹھا لیا یہ دیکھ کر ملکہ عالیہ پھر اعتراض کر بیٹھیں۔ " کتنا پست حوصلہ ہے یہ شخص ! اس سے ایک درہم بھی نہیں چھوڑا جاتا"۔
بادشاہ سلامت کو بھی یہ حرکت بہت بری لگی۔ بادشاہ سلامت نے ماہی گیر کو آواز دی " تم کتنا کم حوصلہ ہو ماہی گیر اس رقم میں سے ایک درہم بھی تم میرے غلاموں کے لیے نہیں چھوڑنا چاہتے" ۔
ماہی گیر نے پھر جان کی امان پاکر عرض کی "جاہ پناہ میں بد فطرت نہیں بلکہ حق نمک کو پہچانتا ہوں۔ میں نے ایک درہم کو اس لیے اٹھالیا اس پر ایک طرف قرآنی آیات لکھی ہیں۔ اور دوسری طرف بادشاہ سلامت کا نام مبارک ہے۔ مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ درہم فرش پر پڑا رہ جائے اور اگر اس پر کسی کا پاؤں پڑ جائے تو بے ادبی کی بات ہوگی " ۔
اب تو ماہی گیر کا یہ جواب اور بھی زیادہ مسرت کا سبب بن گیا اور بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ "پچھلی دو رقم کے علاوہ پانچ ہزار درہم اور انعام دیے جائیں" ۔
ماہی گیر اپنی عقلمندی اور ذہانت سے بادشاہ سلامت کا دل جیت تا ہی چلا گیا اور خوش خوش اپنے گھر کی طرف راہ لی۔